سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے ججز ٹرانسفر کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی، تبادلے پر جج سے رضامندی بھی لی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کی ، ججز کے وکیل صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کسی جج کی ہائیکورٹ میں مستقل ٹرانسفر کی مثال نہیں ملتی،آرٹیکل 200 کے تحت صرف عبوری ٹرانسفر ہو سکتی ہے۔
وکیل صلاح الدین نے کہا کہ جج کے تبادلے سے اس ہائیکورٹ کی سیٹ خالی نہیں ہو سکتی، جج کے مستقل ٹرانسفر سے آرٹیکل 175 اے غیرموثر ہو جائیگا۔ مستقل تقرری صرف جوڈیشل کمیشن کر سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 175 اے کے تحت نئی تقرری ہو سکتی ہے، نئی تقرری اور تبادلہ کے معنی الگ الگ ہیں ، وکیل نے کہا کہ جج ٹرانسفر کیلئے با معنی مشاورت ہونی چاہیے، با معنی مشاورت کے بغیر تبادلہ کا سارا عمل محض دکھاوا ہے۔