Daily Systematic Metro News Breaking News
اہم خبریںپاکستان

سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہرگز نہیں تھا، جسٹس منیب اختر

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پرچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فُل کورٹ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا۔

سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیرنے اپنے دلائل کا آغاز کیا، اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی لسٹ طلب کی تھی وہ نہیں ملی جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سارا ریکارڈ جمع کرا دیا ہے، کیس سے متعلق حتمی پیپر بک جمع کرا دی ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ 81 آزاد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مجھے مہیا کریں، میں تحریک انصاف کے فارم 66 بھی عدالت کو مہیا کردوں گا۔

وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں کہا میرا تعلق سنی اتحاد اور اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا کے دستاویزات میں کہا گیا تحریک انصاف نظریاتی کے ساتھ منسلک ہوں، تحریک انصاف نظریاتی مختلف سیاسی جماعت ہے جس کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ حامد رضا کو ان ہی کی درخواست پر ٹاور کا نشان انتخابات لڑنے کیلئے دیا گیا، حامد رضا نے بطور آزادامیدوار انتخابات میں حصہ لیا، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اردو والے دستاویزات میں تو حامد رضا نے نہیں لکھا کہ میں آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں اترنا چاہ رہا ہوں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا کہ حامد رضا خود کو آزاد امیدوار نہ کہیں؟ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ حامد رضا نے جمع نہیں کرایا، حامد رضا نے منسلک ہونے کا سرٹیفکیٹ تحریک انصاف کا دیا ہے۔ وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حامد رضا نے حلف لے کر کہا میں تو تحریک انصاف نظریاتی میں ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حامدرضا کو ٹاور کا نشان دیا، ریٹرننگ افسران بھی تو الیکشن کمیشن کے ہی آفیشلز ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا کی سب سے آخری درخواست پر الیکشن کمیشن نے عملدرآمد کیا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حامد رضا نے کس سیاسی جماعت سے خود کو منسلک کیا؟جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جو ریکارڈ ہے ہمیں دکھائیں، ورنہ تو ہوا میں بات ہوگی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد کسی امیدوار کو اختیار ہے کہ اپنی پارٹی تبدیل کر لے؟ کیا کوئی امیدوار کہہ سکتا ہے کہ فلاں پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی کا ٹکٹ لینا چاہتا ہوں؟

جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے کاغذات نامزدگی کا کیس ہے، ریٹرننگ افسران کے پاس امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک پارٹی سرٹیفیکٹ ہوتا ہے؟

وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن میں جو آخری درخواست ہو اس کے ساتھ جانا ہوتا ہے، پہلے والا فارم الیکشن کمیشن نے کیوں نہیں دیکھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے دریافت کیا کہ کیا آپ کسی کو انتخابات سے باہر کرسکتے ہیں؟ وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ افسران کیلئے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے آسان راستہ تھا کہ ایسے امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا جائے۔

اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ایسا ہوا کہ امیدوار کہے میں ایک پارٹی کا ہوں، اسی کا سرٹیفکیٹ بھی دے لیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزادامیدوار ظاہر کر دیا ہو؟ وکیل نے جواب دیا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لی،جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیا ان 81 امیدواروں میں کوئی ایک ہے جس نے جماعت سے وابستگی اور سرٹیفکیٹ بھی دیا؟ کیا ایسے ہیں جنہوں نے وہ کاغذات واپس نہیں لئے مگر پھر بھی اسے آزاد ڈیکلئیر کر دیا ہو؟

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 81 لوگ ہیں تو ان کا مختلف مختلف حساب ہے۔اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب جو چارٹ آپ نے جمع کرایا اس میں موجود ہے، جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ چارٹ کے مطابق 81 میں سے 35 نے وابستگی کو خالی رکھا، کیا یہ ریکارڈ نہیں دکھاتا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ امیدواروں نے پارٹی وابستگی اور ٹکٹ دونوں پی ٹی آئی کے ظاہر کیے،انتخابی نشان الگ چیز ہے، ان امیدواروں کو پی ٹی آئی کا کیوں تصور نہ کیا جائے،وکیل کا کہنا تھا کہ کچھ امیدواروں نے تحریری نہیں زبانی طور پر پر پارٹی وابستگی واپس لی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے سے کنفیوژن پیدا ہوئی،پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی تھی تو امیدوار پارٹی ٹکٹ کہاں سے لاتے؟ امیدوار بھی ایسے ہی کنفیوژ ہوئے جیسے الیکشن کمیشن ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے تضادات کے باوجود امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے وقت ہی کہا پی ٹی آئی کو نشان نہیں ملے گا، الیکشن کمیشن نے بعد میں پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات منظور بھی کیے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو نان پارٹی انتخابی نشان دے سکتا تھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پوچھا تو الیکشن کمیشن سے جائیگا نا کہ امیدواروں نے کیا کیا؟ آزادامیدوار تو الیکشن کمیشن نے بنایا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایک امیدوار کی نہیں، پی ٹی آئی کی بات ہورہی،جو قومی جماعت ہے،الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو کہا کہ آپ کو نشان نہیں ملے گا،سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا،سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر کردیں،سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد ہر گز نہیں تھا۔

جسٹس منیب اختر نے وکیل سے سوال کیا کہ 22دسمبر 2023 کو صدر مملکت کون تھا؟ وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دسمبر 2023 میں صدر عارف علوی تھے، جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا نگران حکومت تھی یا سیاسی جماعت کی حکومت تھی؟کیا کسی نگران حکومت کو نیوٹرل ہونا چاہیے؟ اتنی نیوٹرل جتنا الیکشن کمیشن ہے؟ کیا نگران حکومت اتنی ہی آزاد ہونی چاہیے جتنا الیکشن کمیشن ہے؟

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات عارف علوی نہ کرتے، دنیا بھر کی باتیں کر رہے، صدر مملکت عارف علوی پی ٹی آئی کے ہو کر کیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تھے؟

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابات میں عوام کی منشا دیکھی جاتی ہے، اگر کوئی انتخابات پر سوال اٹھائے تو الیکشن کمیشن کے پاس معاملہ جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ سیاسی نشان بعد کی بات ہے، امیدوار انتخابات میں حصہ لیتا ہے، پارٹی نہیں، امیدوار صرف پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتا، امیدوار کا حق ہے کہ اسے انتخابات کے لئے نشان ملے، وابستگی کا معاہدہ امیدوار اور جماعت کے درمیان ہوتا ہے، آپ کوئی ایک قانون کی شق دکھا دیں الیکشن کمیشن نے انہیں کیسے آزاد ڈیکلیئر کر دیا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ حقائق واضح ہوتے جس کیلئے آپ کا یا میرا بولنا نہیں ضروری ہے، الیکشن کمیشن کے عدالت کو مہیا کئے گئے دستاویزات میں تنازع ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فارم 33 الیکشن کمیشن بناتا ہے جس میں امیدوار اپنا سرٹیفکیٹ دیتا ہے۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت یکم جولائی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

Related posts

پاکستان کی تاریخ کے پہلے جیولین تھروور اور گولڈ میڈلسٹ محمد نواز

Mobeera Fatima

وفاقی کابینہ نے آپریشن عزم استحکام کی توثیق کر دی

Mobeera Fatima

بانی پی ٹی آئی کس سے مذاکرات کرینگے، کس سے نہیں ، اللہ بہتر جانتا ہے ، وزیر داخلہ

Mobeera Fatima

Leave a Comment