گیٹس فارما کراچی میں منعقدہ اینٹی مائکروبیئل اسٹیورڈشپ کانفرنس میں ماہرین نے عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہاکہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا کے باعث دنیا بھر میں سالانہ 50 لاکھ افراد ہلاک ہو رہے ہیں،عوام احتیاط کریں ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ادویات استعمال نہ کریں۔
کراچی میں منعقد ہونے والی”اینٹی مائکروبیل اسٹیورڈ شپ“ کانفرنس میں شریک ماہرین صحت نے کہا کہ پاکستان میں 70 فیصد اینٹی بائیوٹک غیر ضروری طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔
اینٹی مائکروبیل اسٹیورڈشپ کانفرنس قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد، ہیلتھ سروسز اکیڈمی اور گیٹس فارما کے تعاون سے کراچی میں منعقد گئی جس میں وفاقی اور چاروں صوبوں کے ڈائریکٹر جنرل صحت سمیت پاکستان کی 10میڈیکل سوسائٹیز کے صدور اور جنرل سیکرٹری، سابق وفاقی اور صوبائی وزرائے صحت سمیت ملک بھر سے ماہرین صحت نے شرکت کی۔
ماہرین نے کہاکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2019 میں اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا کی وجہ سے تقریبا 12.7 ملین یعنی 12 لاکھ ستر ہزار افراد کی براہ راست اموات ہوئیں جبکہ اس کے نتیجے میں تقریبا 50 لاکھ افراد اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کی پیچیدگیوں کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس یا اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف جراثیموں میں مزاحمت کے نتیجے میں ہونے والی اموات کا 20 فیصد پانچ سال سے کم عمر بچے تھے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوایشن کے مطابق 2019 میں اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس پاکستان میں اموات کی تیسری بڑی وجہ تھی جس کے نتیجے میں 59,200 کی براہ راست اموات ہوئیں جبکہ 221,300 افراد کی اموات کی وجہ جراثیموں میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف ہونے والی مزاحمت کی پیچیدگیاں تھیں۔
پاکستانی اور غیر ملکی ماہرین کے مطابق پاکستان میں نمونیا، ڈائریا، ٹائیفائیڈ، ٹی بی سمیت خون اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کا سبب بننے والے بیکٹیریا میں جدید ترین اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پائی گئی ہے۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں پاکستان میں 126 ارب روپے کی اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کی گئی۔
کانفرنس میں شریک ماہرین نے پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے دریغ استعمال کو کنٹرول کرنے، اینٹی بائیوٹک ادویات کے صرف نسخوں پر فروخت کرنے، عوام میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے متعلق آگاہی پھیلانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں بنائی جانے والی اینٹی بائیوٹک ادویات کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے تاکہ اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس پر قابو پایا جاسکے۔
ہیلتھ سروسز یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شہزاد علی خان نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ تین لاکھ افراد اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا کے باعث براہ راست موت کا شکار ہورہے ہیں جبکہ سات لاکھ افراد اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کی پیچیدگیوں کا شکار ہوکر جاں بحق ہو رہے ہیں، اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے دریغ استعمال پر کنٹرول ناگزیر ہے۔