سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلیز کے ٹرائل سے متعلق کیس کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا ہے کہ نو لوگوں کا کورکمانڈر ہاؤس کے اندر جانا سکیورٹی کی ناکامی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے لیکن آج بھی دلائل مکمل نہ ہو سکے، سماعت کل تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے لیاقت حسین کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ سول جرائم ملٹری کورٹ میں سویلینزکے ٹرائل کا مقدمہ ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا یہ ہے سویلینزکا کن حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ کسی فوجی کو کام سے روکنے پر اکسانے کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی کہ ریٹائرڈ اہلکار سویلینز ہوتے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا سارا انحصار ایف بی علی کیس پر ہے،ایف بی علی کیس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران دونوں ملوث تھے، موجودہ کیس میں کسی پر فوج کو کام سے روکنے پر اکسانے کا الزام ہے؟ آرمی ایکٹ کے تحت تو جرم تب بنے گا جب کوئی اہلکار شکایت کرے یا ملوث ہو۔