مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وکیل سنی اتحاد کونسل کے دلائل پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی لاجک کے مطابق آپ کو صفر سیٹ ملنی چاہیے، آپ کے دلائل مان لیں تو مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو مل جائیں گی۔
سپریم کورٹ میں آج سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں فُل کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے روسٹرم پر آ کر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مختصر رہوں گا، 15 منٹ میں جواب الجواب مکمل کروں گا۔ آرٹیکل 218 کے تحت دیکھنا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمے داری شفاف طریقے سے ادا کی یا نہیں، ثابت کروں گا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمے داری مکمل نہیں کی۔
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ کیس سیدھا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں، مؤقف اپنایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مؤقف اپنایا گیا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کرائی، 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن 3 مخصوص نشستیں اسے ملیں۔
فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بے ایمانی پر مبنی جواب جمع کرایا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق قانون پر مبنی نہیں تھا۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے الیکشن کمیشن کا بی اے پی سے متعلق مخصوص نشستوں کا فیصلہ چیلنج کیا ہے؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل بولے کہ الیکشن کمیشن کہہ دیتا کہ غلطی ہو گئی، مگر الیکشن کمیشن نےایسا رویہ اختیار کیا جیسے بی اے پی سے متعلق فیصلے کا وجود ہی نہیں۔ اس پر جسٹس عرفان سعادت نے سوال کیا کہ کیا بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبر پختون خوا کے انتخابات میں حصہ لیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے خیبر پختون خوا کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن سیٹ نہیں جیتی۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ آپ کا کیس مختلف ہے، سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، ابھی دلائل دیں لیکن بعد میں تفصیلی جواب دیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یونانی کہتے تھے کہ اگر دلائل سے بات نہیں کر سکتے تو فرد پر حملہ کر دو۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا یہ یونانی مثال اچھی بات ہے؟ آئینی بات ہے؟