سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کر دیا گیا ، عمران خان کو بیرک سے کورٹ روم منتقل کیا گیا۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کر لی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کرا دیں، کیا آپ فیصلہ سپورٹ کر رہے ہیں؟ فاروق نائیک نے کہا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہے ہیں؟ فاروق نائیک نے کہا کہ میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل میرے اپنے ہیں۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ بتائیں کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14 ،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے موکل 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے؟ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا، کیا وہ درست تھا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے ،جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب آرڈیننس کب آیا تھا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون 1999 میں آیا تھا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 1999 میں کس کی حکومت تھی؟ نام لے کر بتائیں ،خواجہ حارث نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، پرویز مشرف سے قبل نوازشریف دور حکومت میں ایسا ہی احتساب ایکٹ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے موکل کی حکومت آئی تو احتساب ایکٹ بحال کر دیتے، پرویز مشرف نے تو کہا تھا نیب کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں کو سسٹم سے نکالنا ہے،بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی کچھ ایسا ہی تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ ہماری درخواست میں کسی سیاستدان کا نام نہیں لکھاگیا، چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر بانی پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔